WELCOME TO JAHAN-E-NAAT

عزیزبلگامی سے ایک مکالمہ

غلام ربّانی فداؔ ہانگل کرناٹک بھارت

جہانِ نعت :نعت کن مراحل سے گزررہی ہے اوراس کے کون کون سے آفاق ہیں۔
عزیز بلگامی : نعت کے موجودہ مراحل کے بارے میں یہ سوال بہ ظاہر ایک سادہ سا سوال ہے،لیکن مجھے اِس با ب میں اِیمانداری سے کچھ کہنے کی اِجازت مل جائے تومیں عرض کروں گاکہ نعت پر ایسا وقت شاید اِس سے پہلے کبھی نہیں آیا، جس کے درمیان سے یہ عصر حاضر میں گزر رہی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مذکورہ سوال کو آپ نے غیر شعوری طور پر اِس کے متوقع آفاق سے جوڑنے کی سعی فرمائی ہے۔نعت کے آفاق کی جستجو ایک کٹھن مرحلہ ہے اور اِس کے حقیقی معیار کا تعین کئی اسباب کے تحت ایک پیچیدہ پروسس ہے۔پہلاسبب یہ ہے کہ نعت کہنے والے زیادہ تر مسلمان ہیں اور مختلف متحارب مسالک کے زیر اثر ہیں،اور اِن کا نعتیہ کلام اِن کے مسلکی تصورات کے اثرات سے خالی نہیں۔غیر مسلم نعت گو شعراء بھی اپنے قرب وجوار میں برپامسلم مسلکی شورشوں سے اپنے کلام کو بچا نہیں پاتے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ عصر حاضر ایک مادی عصر ہے ، اور اِس حد تک مادی کہ اِس کے روحانی وسائل بھی مادیت کے حصول کا ذریعہ بن گیے ہیں جو شعراء کی نعتیہ کاوشوں پر اثر انداز ہوکر اِنہیں بے روح بناتے رہتے ہیں۔تیسرا سبب یہ ہے کہ انسانوں کے انسانوں پر ظلم اوراِن کی شقی القلبی نے آج انسانوں ہی کو کچھ اِس طرح اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے کہ آج کا فنکارشعوری یا لاشعوری طور پر کسی نہ کسی کے خوف کے سائے میں اپنا کلام معرضِ وجود میں لاتا رہتا ہے، جس میں نعتیہ کلام بھی شامل ہے۔یہی اسباب ہیں جن کے تحت ہم نے آقائے نعمدار حضرت محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقی شخصیت کو گم کر رکھا ہے۔ یہی اسباب ہیں جن کے تحت ہم آقا ؐ کی شخصیت کو بانٹتے رہتے ہیں۔نتیجتاًاُن کے مقصدِ وجود سے ہم بے بہرہ ہوکر نعتیں کہہ لیتے ہیں یا نعت کہنے کی رسم ادا کر لیتے ہیں اور اپنی نعت کو بے اعتدالی کا شکار بنا دیتے ہیں۔یہاں۳۵ سال پرانے ایک اہم واقعہ کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ریاست کے ایک اہم مقام پر ایک نعتیہ مشاعرے میں ہم اپنے اُستادِمحترم عطاء الرحمٰن عطاؔ مرحوم کے ساتھ شریکِ محفل تھے۔قابل اناؤنسر نے مشاعرے کے نعتیہ حصہ کی جم کر نظامت فرمائی تھی جسے بہت پسند کیاگیاتھالیکن جب غزل کا دور شروع کیا گیا تھا تو اناؤنسر کے الفاظ ہم سب پر بجلی بن کر گرے تھے:’’آئیے، نعتیہ دور کے بعد غزل کا دور شروع کیا جاتا ہے،جی ہاں، اختر شیرانی کی وہ غزل جس میں بدن کی کتاب پڑھی جاتی ہے۔۔۔میں عطا ء الرحمٰن عطاؔ سے غزل کا دور شروع کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔‘‘عطاؔ مائک پر آئے اور چند لائن فی البدیہہ طور پر پڑھے اور بیٹھ گیے اورجِس کے فوراً بعد اناؤنسر نے مشاعرے کے اختتام کا یہ کہہ کر اعلان کر دیا تھا کہ عطاؔ کا میں شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے ہماری بروقت رہنمائی فرما کر ہمارے احساس کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ مجھے عطا ؔ کی صرف چار لائنیں یاد ہیں:
نعت کی بزم کا بھی حال ہے ریڈیو جیسا
بعد قرأت کے لگے جیسے لتا کا گانا
یا اِن افکار کی سولی پہ تمہیں چڑھنا ہے
یا اِن افکار کو سولی پہ چڑھانا ہوگا
میں سمجھتا ہوں آج بھی حالات جوں کے توں برقرار ہیں اور صورتحال نہ صرف یہ کہ بدلی نہیں، بلکہ مزید بگڑ گئی ہے۔ پونے دو سو کروڑ نفوس پر مشتمل یہ عظیم ملّت حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ کی محبتوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ایک ذلیل و خوار زندگی پر قناعت کر چکی ہے، جسے بنی اِسرائیل کو برطرف کرکے اِمامت کے منصب پر فائز کیا گیا تھااور چودہ سو سال بعد بھی یہ اپنے منصب کا چارج لینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ایسے میں آپ نعت کے کونسے آفاق کی جستجو فرمائیں
گے۔!!
جہانِ نعت :آپ موضوعات کے اعتبار سے ہنداور پاک کے نعتیہ کلام میں کیاامتیازات محسوس کرتے ہیں؟
عزیز بلگامی :نعت خالصتاً حضورِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں ایک شاعر کے اظہارِ عقیدت کا نام ہے۔عقیدت مند کسی بھی ملک کا ہو سکتا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ جغرافیائی سرحدوں کا عقیدتِ رسول صلی ا للہ علیہ و سلم سے کوئی واسطہ بھی نہیں،نہ نعت میں عشقِ رسول ؐ سے جڑے موضوعات کسی ملک کے خزانۂ نعت کے لیے کوئی امتیاز پیدا کردیتے ہیں۔ہاں، حریتِ فکر اور کسی قوم کو حاصل حقیقی ذہنی و سیاسی آزادی سے مذکورہ اِظہارِ عقیدت کی ماہیت و کیفیت بدل سکتی ہے اورایسے ہر ملک کے شاعر و فنکار نعت کو یاتوبلندیاں عطا کر جاتے ہیں یا کسی محدوددائرے میں محصور کر دیتے ہیں۔بات اگر ہند و پاک کے نعتیہ کلام تک محدود ہے تو آپ کے سوال کا جواب پیچیدہ نہیں ہوگا۔پاکستان میں اپنے تمام تر پیچیدہ مسئلوں کے باوجود ایک آزاد مسلم قوم اپنی انفرادی حریت فکر کے ساتھ رہتی بستی ہے تو اِس کی آزادی اور حریت فکر اِس کے شاعر و فنکار کی تخلیق میں جا بجا نظر آئے گی، چاہے کوئی صنفِ سخن کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے جس ملک کے قیام کو علامہ اِقبال علیہ رحمہ کی تائید حاصل رہی ہو ، وہاں کے شعراء کا نعتیہ کلام امتیازات کے اعتبار سے فائق تر ہی رہے گا۔رہی ہندوستان کا نعتیہ منظر نامہ تو، بہ ظاہر ہندوستانی نعت گو بھی اگرچہ ایک آزاد قوم سے متعلق مانا جاتا ہے، تاہم آج بھی یہاں کی دو قومی کشمکش یہاں کی عوام کی نفسیات کا حصہ ہے، جس کے سبب اپنی نعت کو وہ اِس نفسیات کے اثرات سے بچا نہیں پاتا ۔اِلا ماشاء اللہ، یہاں بھی مستثنیات موجود ہو سکتے ہیں ، بلکہ موجود ہیں۔
جہانِ نعت :آج کے نعت نگاروں کوکیاپیغام دیناچاہیں گے؟
عزیز بلگامی :میرا پیغام یہی ہے کہ جس ہستی کی توصیف بیان کرنے میں ہمارے نعت نگاررطب اللسان ہیں سب سے پہلے وہ، اُنؐ کا حقیقی تعارف حاصل کریں پھر اُن کی نعت کہنے کو قلم اُٹھائیں۔
جہانِ نعت :کیاشاعری کے لئے عشق ضروری ہے؟
عزیز بلگامی :شاعری کے لیے جس عشق کی ضرورت ہے اُس کا ادراک ضروری ہے۔ عشق کے الگ الگ تصورات سے شاعری کی نوعیت و ماہیت بدل جاتی ہے۔جدید دور کے جنسی ماحول میں عشق کا لفظ استعمال کرتے وقت خوف محسوس ہوتا ہے۔لفظ ’’عشق‘‘ کی ہمارے بیشتر شاعروں نے دھجیاں اڑا دی ہیں، اور عشق ، جنس زدگی کے مترادفات میں شامل ہو گیا ہے۔تفصیل کا موقع نہیں۔ 
جہانِ نعت :آپ کی پہلی غزل اورپہلی نعت کا مطلع ومقطع ارشاد فرمائیے؟
عزیز بلگامی :
نعت:
اہلِ ستم کے پتھر کھا کر گل برسانے والا وہؐ
اور دعائے خیر کی خاطر ہاتھ اُٹھانے والا وہؐ
اپنے قلم کی قُوت کو تو اُس پہ لُٹانے والا عزیزؔ 
لفظوں کے ہر پیکر کی تاثیر بڑھانے والا وہؐ
غزل:صرف مطلع اور ایک شعر یاد ہے:
مجھے سنو کہ میں ادنیٰ سہی،وہ اعلیٰ ہے
درِ خیال مرا آج کھُلنے والا ہے
اگر ہو چشم پہ عینک سیاہ شیشوں کی
سفید رنگ بھی اُن کی نظر میں کالا ہے
جہانِ نعت :آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟
عزیز بلگامی :علامہ اِقبال، عامر عثمانی، نعیم صدیقی، حفیظ میرٹھی،ظفرؔ گورکھپوری۔
جہانِ نعت :پسندیدہ لباس،خوشبو،رنگ؟
عزیز بلگامی :ہر وہ لباس جسے زیبِ تن کرتے ہوئے کسی کمتری کا احساس نہ ہوتا ہو،خوشبوئے وفاکے ساتھ ہر وہ خوشبو جو مشام جاں کو معطر کر دے، رنگ وہ جو آنکھوں پر بوجھ نہ بنے، ہلکا سبز رنگ پسند کرتا ہوں۔
جہانِ نعت :کیاآپ کے بچوں میں کوئی شعرکہتے ہیں؟
عزیز بلگامی : شعر کہتے تو نہیں ، البتہ شعر سمجھتے ضرور ہیں۔ میرے اشعار کے اولین سامعین میں میری اہلیہ اور میرے بچے شامل ہوتے ہیں ۔یہاں سے ہری جھنڈی مل جاتی ہے تو مشاعرے میں پڑھنے کا اعتماد حاصل ہو جاتا ہے۔
جہانِ نعت : ادارہ جہان نعت اورقارئین کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
عزیز بلگامی :جہانِ نعت کے نام سے ایک ادارے کی تشکیل اور ریاستِ کرناٹک میں اِس شان سے اِس کا نظم و انصرام قابلِ صد ستائش ہے۔ آپ جیسی قطرۂ سیماب جیسی شخصیت کی سرپرستی اِسے حاصل ہے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔جہانِ نعت کے لیے پیغام کے بجائے میرا یہ مشورہ ہے کہ اِسے فکر و نظرکی افراط و تفریط سے بچاکے رکھا جائے، جس کی طرف گزشتہ جوابات میں اِشارے موجود ہیں۔قارئین کے لیے صرف اِتنا عرض ہے کہ وہ نعت کو عقیدت کے ساتھ سننے کے ساتھ ساتھ شاعر کے موضوعات پر کڑی نظر رکھیں اور نعت کے سلسلے میں بے راہ رَو شعراء کی بد تمیزیوں کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کریں نہ کہ واہ واہ کے ساتھ ہمت افزائی۔شکریہ۔  
******