jahan-e-naat

ڈاکٹرمشاہدرضوی سے مکالمہ

مصاحبہ گوغلام ربانی فداؔ

سوال : اپنامکمل ادبی ،سوانحی، مذہبی پس منظربیان کیجئے۔
جواب: ناچیز محمدحسین ابن عبدالرشید المتخلص بہ مُشاہد رضوی ، شہر مالیگاؤں (ناسک مہاراشٹرا) کے ایک متوسط مومن انصاری خاندان میں محرم الحرام ۱۴۰۰ھ اوراسکولی ریکارڈ کے مطابق یکم جون ۱۹۷۹ء کو پیدا ہوا۔ داداجان حاجی احمد مرحوم و مغفور سلسلۂ قادریہ کاملیہ کے مشہور بزرگ حضرت صوفی جان محمد میاں علیہ الرحمۃ( ولید پور شریف) سے بیعت و رادت رکھتے تھے آپ کے والد عبدالشکور مرحوم نے محلہ سکٹہاں، ٹانڈہ (یوپی) سے ہجرت کرکے مالیگاؤں میں مستقل سکونت اختیا ر کرلی تھی ۔ میں نے ہمارے دادا مرحوم کو تاعمر سُنّت کے مطابق سر پر عمامہ سجائے ہوئے دیکھا آپ صوم و صلاۃ اور تلاوتِ قرآن کے انتہائی پابند تھے ،والد گرامی حاجی عبد الرشید برکاتی اور والدہ حجن خدیجہ دونوں بھی صوم و صلاۃ کے پابند اور مذہب سے گہرا لگاورکھنے والے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم سب بھائی بہنوں کو اپنی استطاعت کے مطابق عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائی اور اس احسن انداز سے تربیت فرمائی کہ ہم پر مذہبی تعلیم کا رنگ غالب ہے۔ ہم سب اہل خانہ امام احمدرضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کو ماننے والے ہیں۔ ناچیز نے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ حزب الرسول(ﷺ)انصارروڈ اور مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن ،واقع سنّی د فتر انصار روڈ اسلام پورہ سے حاصل کی،بعد ازاں دارالعلوم حنفیہ سُنِّیہ اسلام پورہ میں کچھ سال رہ کر اَعلادینی تعلیم کا حصول کیا مگر بد قسمتی سے تکمیل نہ ہوسکی،اسی طرح ابتدائی عصری تعلیم سوئیس پری پرائمری اور میونسپل اردو مدرسہ نمبر ۶۸میں حاصل کی بعدہ اے ٹی ٹی ہائی اسکول سے دسویں کا امتحان پاس کیا اور وہیں کی جونیئر کالج سے بارہویں کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اردو مضمون میں پونہ بورڈ میں سکنڈ ٹاپ پوزیشن حاصل کی،بارہویں کے بعد جے اے ٹی جونیئر کالج آف ایجوکیشن،امام احمد رضا روڈ سے ڈی ایڈ کیا اور پونہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں بی اے اور ایم اے کے اندر امتیازی درجہ سے کامیابی نصیب ہوئی،اسی دوران ایم اے سکنڈ میں رہتے ہوئے ناچیز یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGS)کے زیرِ اہتمام کالجز اور یونیورسٹیز میں لکچرر شپ کے لیے ملک گیر سطح کے مقابلہ جاتی امتحان NET(نیشنل ایجوکیشنل ٹیلنٹ) میں شریک ہوا اور اس مشکل ترین امتحان میں فرسٹ اٹیمپٹ میں کام یابی حاصل کرکے ایم اے سکنڈ پارٹ میں رہتے ہوئے NETجیسا مشکل ترین امتحان فرسٹ اٹیمپٹ میں کام یاب کرنے والے مالیگاؤں کے پہلے مسلم طالب علم کہلانے کااعزاز ملا ،مَیں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے جولائی ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی اورنگ آباد سے 146146مصطفی رضا نوریؔبریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ145145عنوان کے تحت محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ (صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا ویمن کالج اورنگ آباد ) کی نگرانی میںپی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروایا اور ۲؍ اپریل ۲۰۱۱ء بروز سنیچر کو تشفی بخش وائیوا کے بعد ۱۸؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔مذکورہ موضوع پر یہ پہلی پی ایچ ڈی ہے۔ 
آپ نے ادبی پس منظر کے بارے میں بھی دریافت کیا ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے گھرانے میں ماضی میں کوئی شاعر یا ادیب تو نہیں گزرا یہ امام احمدرضا بریلوی کی کتب کے مطالعہ کا ثمرہ ہے کہ شاعری، نثر نگاری اور تحقیق و تنقید وغیرہ کا شعور پیدا ہوا۔والدین کی تربیت کا بھی اس میں دخل ہے کہ انھوں نے اچھی کتب کے مطالعہ کی بچپن ہی سے عادت پیدا کی ۔ تقریباً ہر فن اور ہر موضوع پر کتابیں گھر میں موجود ہونے کے سبب مطالعہ کے شوق نے بھی ادبی ذوق کو مہمیز دی۔ ہاں!ہائی اسکول کے زمانے میں کچھ ایسے دوستوں کی صحبت بھی ملی جس کی وجہ سے شعری و ادبی ذوق پروان چڑھا۔
سوال: نعت کن ارتقائی مراحل سے گزررہی ہے اوراس کے سامنے کون کون سے آفاق ہیں؟
جواب :نعت اب ارتقائی مراحل سے نکل کر ترقی کی اوج ثریا پر پہنچ چکی ہے ۔ہماری اردو دنیا میں نعت سے متعلق ماضی میں جونظریات تھے ، ان سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ دنیا نے وہ دور بھی دیکھا جب نعت کو بہ طورِ صنف تسلیم کرناتو کُجا اسے شاعری سے ہی خارج کردیا گیا تھا، انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے لاکھ کوشش کی کہ اس صنف کو پروان چڑھنے نہ دیا جائے لیکن آزادی کے بعد بعض جدیدشعرا نے کائناتِ عالم کو اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منور و مجلا کرنے کا عزمِ مصمم کرلیا اور سببِ تخلیقِ کائنات اور وجہِ حیاتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ، اخلاق و کردار او ر شمائل و فضائل سے تاریک ذہنوں کو نورِ یقین عطا کرنا شروع کردیاان میں حفیظؔ میرٹھی، حسنینؔ رضا بریلوی، حافظؔ پیلی بھیتی، مصطفی رضا نوریؔ بریلوی،زائرِ حرم حمیدؔ صدیقی لکھنوی، ضیاؔ بدایونی، نعیمؔ صدیقی، یونس ؔقنوجی، ماہرؔ القادری، سید محمد اشرفی سیدؔکچھوچھوی وغیرہم کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت گوئی کے ذریعہ شعور و فکر کی طہارت و پاکیزگی سے ہم کنار کرنے والوں میں علاوہ ان شعرا کے نعت گوئی کے فن کو وسعت دینے میں عمیقؔ حنفی، عبدالعزیزخالدؔ، شمسؔ بریلوی ،رازؔ الٰہ آبادی، عثمان عارفؔ نقش بندی، حفیظؔ تائب، اعظمؔ چشتی، راجا رشیدؔ محمود، شبنم ؔ کمالی ، قیصرؔ وارثی،اخترؔ الحامدی، مظفر ؔ وارثی، اجملؔ سلطان پوری ، طلحہ رضوی برقؔ دانا پوری، سید شمیم گوہرؔالٰہ آبادی وغیرہم کی خدمات لائقِ قدر ہیں۔ 
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ آج ہند و پاک میں کئی شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے ان میں سید آلِ رسول حسنین نظمی مارہروی، اخترؔ رضا ازہری بریلوی، ابرار ؔ کرت پوری، خلیل ؔ وارثی، سید صبیح ؔ رحمانی وغیرہم نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
ان حضرات کی پیہم مساعی سے نعت اب ارتقائی مراحل سے کافی آگے بلندی کی طرف پرواز کرچکی ہے ۔ ہمارے نعت نگاروںنے ادب کے بہت سے آفاق کو اپنی نعت گوئی کے ذریعے مسخر کرلیا ہے۔ دیکھیے نا !! پہلے صرف غزل کی محبوب و مروج صنف میں نعت نگار حضرات طبع آزمائی کو محبوب و مرغوب تصور کرتے تھے۔ اب عصری منظر نامے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دل ایک مسرت بخش جذبات سے سرشار ہوجاتا ہے ۔آج نعت نگاری بے پناہ مقبول ہے اور ادب کے نئے نئے آفاق کو سَر بھی کیا جارہاہے ۔ آج کے شعرا نت نئی تراکیب اور لفظیات ، متنوع بحروں اور خود تراشیدہ زمینوں میں نعتیہ کلام لکھ رہے ہیں ، دنیا کے تقریباً ہر خطے میں بلالحاظ رنگ و نسل اور مذہب وملت نعت گوئی مسلسل جاری ہے ، نعت شاعری کے جملہ فارم مثلاً غزل ، مثنوی ، رباعی ، قطعہ ، قصیدہ، ثلاثی، مربع، مسدس، مخمس ، دوہا ، کہہ مکرنی، چھند ، چوپائی ، سانیٹ ، ہائیکو، ترائیلے، ماہیے وغیرہ وغیرہ اصناف میں لکھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کونعت گوئی کی صدی خیال کیا جارہا ہے۔ 
ہاں! اتنا ضرور ہے کہ اب بھی غزل ، قصیدہ ، مثنوی، رباعی، مرثیہ ، نظم وغیرہ کی طرح نعت نگاری کے پیرایۂ زبان و بیان میں جدت و ندرت کی قدرے ضرورت ہے ۔ لیکن خوشی بھی اس امر کی ہے کہ ہمارے نئے نعت گو حضرات اس سمت کافی توجہ مبذول کررہے ہیں ۔
سوال:اچھی نعت کہنے کے لیے صرف زبان وبیان پرقدرت ضروری ہے یا دیگر لوازمات اورتقاضے بھی ضروری ہیں؟
جواب : احسان دانشؔ کہا کرتے تھے کہ اچھا شعر کہنے کے لیے نثری کتب کا مطالعہ ضروری ہے۔ نعت تو ادب کی سب سے نازک اور مقدس صنف ہے اس لیے اس میں طبع آزمائی کرنے کے لیے توصرف زبان و بیان پر قدرت ضروری نہیں بل کہ کتب احادیث کے ابوابِ فضائل اور سیرت ِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہوئی مستند کتابوں کا مطالعہ بھی شاعر کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ وہ اس بات سے باخبر رہ کہ اس کی نعت نگاری میں کہیں کوئی غیر مستند ، غیر معتبر ، موضوع یا من گھڑت واقعہ یا روایت تو جگہ نہیں پارہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے اچھے شاعروں کے یہاں ایسی بے احتیاطی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم مذہبی ادب کا بھی گہرامطالعہ کریں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی معتبر کتب کو پڑھیں تاکہ ہمارا کلام ہر قسم کی بے اعتدالی اور غیر محتاط رویوں سے محفوظ رہے۔
سوال:نعتیہ نظموں کی تعداد موجودہ دورمیںآپ کہاں دیکھتے ہیں۔کہاجارہاہے کہ موجودہ دورنعتیہ نظم کادورہے۔آپ ان امکانات کوکہاں پراورکیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: سچ کہا آپ نے موجودہ دور نعتیہ نظموں کا دور ہے ۔ اب غزل کے فارم سے آگے نظم کی ہیئت میں نعت نگاری کثرت سے کی جارہی ہے ۔ہمارے یہاں تو کم لیکن پاکستان ، عرب امارات اور دیگر ممالک کے نعت نگار شعرا موجودہ دور کے درد و کسک اور کرب وابتلا کو اپنی نعتیہ نظموں میں بڑی خوب صورتی سے تحلیل کررہے ہیں اور مختصرنعتیہ نظموں کے علاوہ طویل نعتیہ نظمیں بھی لکھ رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں قیصر الجعفری کی ایک طویل نعتیہ نظم 146146چراغِ حرا 145145کافی مقبول ہوئی اوراسی طرح مالیگاؤں کے مشہور شاعر امین صدیقی کی ایک طویل نظم 146146تنزیل145145اور سلیم شہزاد کی سیرت پر منظوم نظم 146146 تزکیہ 145145 اور 146146 وہ لیلۃ القدر کا ستاراـ145145 کے نام ابھی ذہن میں آرہے ہیںجو طویل تجرباتی نعتیہ نظمیں ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوستان کے بعض جدید شعر انے بھی کافی اچھی نعتیہ نظمیں کہی ہیں ۔ 
ویسے اپنی خوب صورت اور منفرد نعتیہ نظموں کی وجہ سے عمیقؔ حنفی، سید جمیل نقویؔ ، مظفر ؔوارثی ، نعیم ؔصدیقی اور عبدالعزیز خالدؔ نے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں ایک زرّیں نقش ثبت کیا ہے۔عمیقؔ حنفی کی نظم146146صلصلۃ الجرس145145 عصرِ جدید کے مطلع کا ایک ایسا روشن ترین ستارہ ہے جس کی چمک دمک سے جبینِ آفتاب بھی شرمارہی ہے ۔ یہ ایک ایسی مقبول ترین نظم ہے جسے ہر مکتب فکر کے افراد نے بہ نظرِ استحسان ملاحظہ کیا ہے۔نعیم صدیقی کی 146146گرداب و گہر145145 بھی بڑی خوب صوت طویل نعتیہ نظم ہے ۔علاوہ ازیں عبدالعزیز خالدؔ کی طویل نظموں 146146منحمنا،فارقلیط،حمطایا، طاب طاب، ماذماذ ، حاط حاط145145 کے تذکرہ کے بغیر عصرِ حاضر میں اردو نعت گوئی کابیان نامکمل کہلائے گا۔مزید اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ اب نظم کے فارم میں نعت نگاری نئے لکھنے والوں میں مقبول ہوگی ۔ 
ہاں! ایک بات اور یاد آئی کہ الطاف حسین حالیؔ کی مسدس اور اقبالؔ کی بعض نظموں اور حفیظؔجالندھری کی شاہ نامہ کی زیریں لہریں بھی نعت سے ہم رشتہ ہیں۔جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 
سوال:آج کے دورمیں نعت لکھنے والوں کے لیے خصوصاً نوجوانوں کے لیے کیاپیغام دیناچاہیں گے؟کیااوصاف کواپناناچاہیں؟
جواب: نعت نگار حضرات کے لیے چاہیے کہ وہ اپنے اشعار کو صداقت اور سچائی کا آئینہ دار بنائیں ۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے شعروں میں کچھ بیان کررہے ہیں اور ہمار ا طرز عمل کچھ اور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر ہم نعت لکھ رہے ہیں تو سنتِ مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کریں ۔ ورنہ ہماری شاعری محض شاعری کا حسن رہ جائے گی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو ہمارے اشعار ہیں وہی ہمارے اعمال بھی بولنے لگیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کررہے ہیں صرف شاعری کے حُسن کے لیے اور نعتیہ مشاعروں اور مجلسوں میں داد وتحسین وصول کرنے کے لیے نعتیہ کلام لکھ رہے ہیں تو یہ صرف دنیاوی اعتبار سے تو نفع بخش ہوسکتا ہے ۔ دنیوی لحاظ سے یہ کسی بھی صورت قابل تحسین نہیں ۔ خلوص وللہیت کا شعروں میں ہونا ضروری ہے ۔ کیوں کہ ہم ایک ایسی عالی وقاراور عظمت نشان بارگاہ میں محوِ نغمہ سرا ہیں جن پر اللہ کی عطا سے ہمارے حالات خوب خوب روشن ہیں ۔اور مطالعہ کی عادت ڈالیں اچھی نعتیہ شاعری بھی پڑھتے رہیں اور سیرت و تاریخ اور احادیث کی کتب سے بابِ فضا ئل بھی اپنے مطالعہ میں رکھیں۔ 
سوال :آپ کے پسندیدہ نعت گوشاعرکون ہیں؟
جواب : میرے پسندیدہ نعت گو شاعروں میں سب سے مقدم امام احمدرضا بریلوی ہیں ۔ علامہ حسن رضا بریلوی، مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا بریلوی ، علامہ جمیل الرحمن بریلوی ،محدثِ اعظم ہند، سید نظمی میاں ، تاج الشریعہ علامہ ازہری میاں، مولانا سعید اعجاز کامٹوی ، راجارشیدمحمود،اجمل سلطان پوری ، بیکل اتساہی، الطاف انصاری سلطان پوری مالیگانوی، کلیم شاہدوی مالیگانوی، مظفر وارثی، عبدالعزیزخالد، حفیظ تائب جیسے نعت گو شعرا بھی ناچیز کے پسندیدہ شاعروں میں شامل ہیں۔ 
سوال:آپ کے نعتیہ شاعری پرکن حضرات کے اثرات زیادہ ہیں؟
جواب : ناچیز کی نعتیہ شاعری پر امام احمدرضا بریلوی ، سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی، الطاف انصاری سلطان پوری مالیگانوی اور کلیم شاہدوی مالیگانوی کے اثرات زیادہ ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان شاعروں کا کلام جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے مسلسل سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔ اور آج بھی ان کے کلام پردۂ ذہن پرخوب صورت گل بوٹوں کی طرح نقش ہیں ۔ 
سوال:نعتیہ ادب کے سلسلے میں ہندوستان میں بیداری کے حوالے سے آپ کتنے مطمئن ہیں؟
جواب : ماضی کی بہ نسبت اب ہندوستان میں نعتیہ ادب کے سلسلے میں قدرے بیداری آئی ہے ۔ اسے میں قابل اطمینان تو تصورنہیں کرتا ۔ بہ ہر کیف! جو ہے خدا کا شکر ہے۔ ناچیز کو اپنے پی ایچ ڈی کے دوران بہت دشواریاںپیش آئی تھیں ۔ یونی ورسٹی لیول پر نعت کو صنف ادب میں شامل ہی نہیں سمجھا جارہا تھا ۔ اس لیے میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ ہندوستان میں نعتیہ ادب کے سلسلے میں جو بیداری ہے وہ ابھی ارتقائی مراحل سے گذررہی ہے۔
ہاں! ابرار کرت پوری صاحب نے اور آپ نے جو تحریکیں نعتیہ ادب کے فروغ وارتقا کے لیے شروع کی ہیں ان سے اچھے اور بہتر اثرات مستقبل میں ہمیں دیکھنے کو ضرور ملیں گے۔ 
سوال:اپنے پسندیدہ اشعار سنایئے؟
جواب : جہاں تک پسندیدہ اشعار کی بات ہے تو اس کی تعداد کافی ہے ،امام احمدرضا کا مکمل مجموعہ اور حضرت سید نظمی میاں کی پوری نعتیہ شاعری میرے لیے بے حد پسندیدہ ہیں ۔بہ ہر حا ل چند شعر نشان خاطر فرمائیں ؎
رشک قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں 
ذرہ جو تیرا اے شہ گردوں جناب ہوں 
مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں 
دردا میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں
(امام احمد رضا )
گل خلد لے کے زاہد تمہیں خار طیبہ دے دوں 
مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے
(علامہ حسن رضا)
جلوۂ حسن جہاں تاب کا کیا حال کہوں 
آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیرں ہوگا
دم نکل جائے تمہیں دیکھ کے آسانی سے 
کچھ بھی دشوار نہ ہوگا جو یہ آساں ہوگا
( مفتی اعظم) 
ذرا اے مرکب عمر رواں چل برق کی صورت 
دکھا پرواز کے جوہر مدینہ آنے والا ہے
(ازہری میاں)
ترا روضہ ہے مرے سامنے مگر اپنی شکل دکھاؤں کیا
میں یہ کس مقام پہ آگیا کہ نہ ہجر ہے نہ وصا ل ہے
(اشرف میاں مارہروی)
طاق دل پہ رکھی ہے شمع عشق احمدکی 
نور کی شعاعوں سے بھر گیا ہے من میرا 
میرا ایک شعر بھی مجھے بے حد پسند ہے لیجیے اسے بھی سماعت فرمالیں ؎
مَیں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہے 
کس طرح نکالوں یہاں اظہار کی صورت
سوال: آپ نے پہلی نعت کب کہی ۔مطلع ومقطع کیاتھا؟
جواب : مَیں جب جماعت دہم میں زیر تعلیم تھا جب پہلی نعت قلم بند ہوئی تھی جو کہ اما م احمدرضا بریلوی کی مشہورِ زمانہ نعت 146146زہے عزت و اعتلاے محمد(ﷺ)145145 کی زمین میں ہے ۔ مطلع و مقطع کے ساتھ ایکاور شعر جس میں پہلی نعت کا ذکر ہے سنیں ؎
ہے بہتر وظیفہ ثناے محمد (ﷺ)
خدا خود ہے مدحت سراے محمد (ﷺ)
رضا کے کرم سے بنی نعتِ اول 
جو اول رقم کی ثناے محمد (ﷺ)
مُشاہدؔ یہ آنکھیں ہیں کس کام کی پھر
نہ دیکھے اگر جلوہ ہاے محمد (ﷺ)
سوال: قارئین جہان نعت کو کیاپیغام دیناچاہیں گے؟
جواب : مَیں جہان نعت کے قارئین کو یہی کہنا چاہوں گا کہ اب عالمی منظر نامے پر نعت بے پناہ مقبول ہورہی ہے ،اس لیے نعت کی خوشبو کو گھر گھر پھیلائیں ، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ساری تکلیفوں اورمصائب و آلام کا واحد حل ہے اس کو خوب عام کریں ۔ آج ہم جن کربیہ حالات سے دوچار ہورہے ہیں ان کے چلتے سنت و شریعت کا دامن سختی سے تھامے رہیں ۔ نیک بنیں دوسروں کونیک بنائیں ۔ خوش رہیں اور دوسروں کو خوشیاں بانٹیں ۔ 
سوال:جہان نعت کے حوالے سے آپ کے تاثرات کیاہیں؟ آپ اس کی خدمات کوکس زاویے سے دیکھتے ہیں؟
جواب : جہانِ نعت ہندوستان سے نعتیہ ادب کا پہلا جریدہ ہے ۔ جو رفتہ رفتہ ایک وسیع حلقے میں اپنی مقبولیت کا پرچم لہرا رہا ہے ۔اس رسالے کو ہر نعت پسند اور اہل ایمان کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ اس میں شامل نعتیہ ادب کے حوالے سے نئے آفاق سے ہم رشتہ مضامین کی مدد سے ہمارے علم میں اضافہ ہوگا ۔اس کی خدمات یقینا قابل ستایش ہے ۔ ایک ایسے علاقے سے آپ اس رسالے کو نکال رہے ہیں جہاں اردو کا دیگر شہروں کی بہ نسبت کم ہی بول بالا ہے ۔ واقعی آپ ایک قابل تقلید کارنامہ انجام دے رہے ہیں ۔ استاذِ محتر م شبیر آصف کا ای شعر آپ کی نذر کرتا ہوں کہ ؎
ریت میں پھول کھلانا کوئی آسان نہیں 
مَیں نے صحراؤں میں آبلہ پائی کی ہے

یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ رسالے کی سیٹنگ اور کمپوزنگ کو مزید بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ جہانِ نعت صوری اعتبار سے بلند تو ہے ہی جمالیاتی اعتبار سے بھی نکھرااور سنورا ہوا قارئین کے مطالعہ کے میز کی زینت بنے۔